![]() |
Coagulation of honey from a scientific point of view and its coagulation properties and different colors of honey |
شہد کا جمنا سائنسی نقطہ نظر سےاور اس کے جمنے کی خصوصیات اور شہد کے مختلف رنگ
شہد در اصل دو اقسام کی شکر ڈیکسٹروز(Dextrose) اور لیولوز (Laevulose) کا پانی میں نہایت گاڑھا (Super Saturated )محلول
ہے ۔اس میں 14 فیصد سے22 فیصدتک پانی،32سے 35فیصد تک گلو کوز(ڈیکسٹروز )38 تا 40 فیصد تک پھلوں والی شکر(لیوولوزیا
فرکٹوز) تقریباً 4فیصد دیگر اقسام کی شکر
اور 3فیصد دوسرے مادہ جا ت ہوتے ہیں ۔ جب کسی مادے مثلاً نمک یا شکر کو پانی میں عام
درجہ حرارت پر حل کرتے ہیں تواس مادے کی ایک خاص مقدار پانی میں حل ہو جاتی ہے ۔
اس کے بعد مزید مادہ پانی میں اس درجہ حرارت پر حل نہیں ہو تا جوبرتن کے پیندے میں
تہہ نشین ہو جاتا ہے ۔ اس کو اس مادہ کا سیر شدہ محلول (Saturated Solution)کہتے
ہیں ۔ جب اس مادہ ملا پانی کو گرم کیا جاتا ہے تو اس محلول میں اس مادہ کی مزید
مقدار حل ہو جاتی ہے ۔ باقی جتنا زیادہ گرم ہو گا مادے کی اتنی ہی زیادہ مقدار اس
محلول میں حل ہو تی جائے گی ۔اس محلول کو
جس میں زیادہ درجہ حرارت ہونے کی وجہ سے سیرشدہ محلول میں موجود مادہ کی مقدار سے
زیادہ مادہ حل ہوگیا ہو سپر سیچوریٹڈ محلول کہتے ہیں۔ ایسا محلول جب ٹھنڈا ہو کر
عام درجہ حرارت پر آتا ہے تو مادہ کی جو
زائد مقدار درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس میں حل ہوئی ہوتی ہےوہ دوبارہ تہہ
نشین ہو جاتی ہے۔
مندرجہ بالا شکر یات کے علاوہ شہد میں 22بلکہ اس سے زیادہ
اقسام کی تھوڑی سی مقدار میں پائی جانے والی دوسری مرکب شکریات(Complex Sugar)کم و بیش 20
اقسام کے تیزابی مادے ، 11 اقسام کی
لحمیات ، 21 اقسام کی امینو ایسڈز(Amino Acid)، 11اقسام کی دھا تیں، 5اقسام کے حیاتین (Vitamin)اور
تقریباً 5 اقسام کے ہی لعوقات ( Enzymes) شامل ہیں۔ ان گونا ں گوں اقسام کی دھاتوں و مادوں کی بدولت ہی یہ
ممکن ہوا کہ شہد کے استعمال میں بہت سی بیماریوں کا علاج ہے ۔ جن میں دل کی بیماریاں
، ذیابیطس، کھانسی ،سردی، نمونیا، تپ محرکہ ، پیچش ، معدہ اور انتڑیوں کا سرطان،
جلن ، سوزش اور زخموں غیرہ کا علاج بھی شامل ہے۔
تا زہ نکلے ہوئے شہد کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ شائن کے پھولوں سے بنا ہوا تازہ شہد سفید رنگ کا
ہوتا ہے جبکہ لو کاٹ کے پھولوں سے نکلا ہوا تازہ شہد سمندر کے پانی کی طرح نیلگوں سفید
ہوتا ہے ۔ سرسوں کے پھولوں سے تیار شدہ شہد بلکل ہلکے زرد رنگ کا ،پھلاہی کے
پھولوں سے تیار شدہ شہد اس سے ذرا گہرے رنگ کا اور بر سیم کے پھولوں کا شہد سنہری
زرد رنگ کا ہوتا ہے ۔اگر شہد کو گرمیوں کے موسم میں گرمی کی حالت میں سٹور کیا
جائے یا اس کو گرم کیا جائے تو شہد کے اندر موجود امینو ایسڈز اسی شہد میں موجود
شکر ی مادوں پر کیمیائی عمل کر کے ایسے مادے بناتے ہیں جن کا رنگ بُھورا ہوتا ہے ۔ ان مادوں کے پید ا ہونے سے انسانی
صحت پر شہد کے اثرات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ لیکن شہد کی ایک طبعی خصوصیت
یعنی اس کی رنگت تبدیل ہو جاتی ہے۔
تازہ نکالا ہوا شہد مائع
ہوتا ہے۔ جس میں پانی کی مقدار 14فیصدسے 22فیصد تک ہوتی ہے ۔ ڈومنا مکھی ور
چھوٹی مکھی کے چھتے کھلی فضا میں ہونے کی وجہ سے ان کے چھتوں میں موجود شہد میں
پانی کی مقدار کو پوری طرح سے کنٹرول کرنا
ان مکھیوں کے بس میں نہیں ہوتا۔ ماحول کا اثران کے شہد میں باقی رہ جاتی ہے ۔ اگر
ماحول میں نمی زیادہ ہوگی تو ان مکھیو کے شہدمیں پانی کی مقدار بھی قدرے زیادہ
ہوگی جس سے شہد پتلا اور کم میٹھا ہوگا
اور اگر ماحول میں گرمی اور خشکی کا عنصر غالب ہوگا تو ان کے شہد میں پانی کی
مقدار نسبتاً کم ہوگی۔جس سے شہد زیادہ گاڑھا ہوگا ۔ لیکن اس کے برعکس شہدکی یورپی
مکھی اور پہاڑی مکھی کے چھتےبند ہونے کی وجہ سے چھتے کا ماحول عموماً ان کے اپنے
قابو میں ہوتا ہے اور وہ مکھیاں دوسری اقسام کی مکھیوں کی نسبت شہد کو زیادہ اچھی
طرح سے پکا لیتی ہیں نتیجتاً ان کا شہد عموماً زیادہ گاڑھا اور نسبتاً میٹھا ہو تا
ہے۔
چھتے میں زیادہ درجہ حرارت ہو نے کی وجہ سے تازہ نکلا ہوا شہد عموماً پتلا ہوتا ہے
۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد گاڑھا ہو جا تا ہے
۔شہد کے اس گاڑھے پن کا انحصار ماحول کے درجہ حرارت پر ہوتا ہے ۔سرد موسم
میں گرم موسم کی نسبت شہد زیادہ گاڑھا ہوتا ہے ۔ بلکہ55تا 65 درجے فارن ہیٹ پر
اکثر شہد جم جاتے ہیں اور دانہ دار شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ مائع شہد جم کر ہلکے
رنگ کا ہو جاتا ہے ۔سفید شہد جم کر دو دھیا رنگت
اختیارکر لیتا ہے اور زرد شہد جمنے
پر سفیدی مائل ہو جاتا ہے ۔ بغض منجمد شہد کے زرے مکھن کی طرح نرم باریک ہوتے ہیں ۔جبکہ
دوسری قسم کے منجمد شہد کے ذرے بڑے بڑے
اور جمے ہوئے گھی کی طرح دانہ دار ہوتے ہیں ۔شہد کی یہ جمی ہوئی شکل عوام میں
ناپسند کی جاتی ہے، اکثر لوگ جمے ہوئے شہد کو ملاوٹی شہد گردانتے ہیں حالانکہ ایسا
نہیں ہے ، بلکہ منجمند شہد بھی بالکل خالص ہوتا ہے۔
شہد میں جمنے کی خصو صیت دراصل اس میں ڈیکسٹروز(Dextrose)اور پانی کی مقدار نسبت اور ماحولیاتی درجہ حرارت کی وجہ سے
پیدا ہو تی ہے۔(Dextrose)جس کو عُرف ِعام میں انگوروں کی کھانڈیا گلوکوز بھی کہتے
ہیں کی پانی میں حل پذیری شہد میں موجود دوسری اقسام کی شکریات کی نسبت بہت کم ہے۔جب
شہد کی مکھیاں شہد بنا تی ہیں تو چھتے کا درجہ حرارت عموماً عام فضا سے زیادہ ہوتا
ہے مکھیاں اس میں پانی کی مقدار اس حد تک کم کر دیتی ہیں کہ شہد میں موجود گلوکوز
کی مقدار اُس مقدار سے بڑھ جاتی ہے ، جو اس کے سیرشدہ محلول میں ہونی چاہیے ۔ لیکن
درجہ حرارت پر زیادہ ہونے کی وجہ سے گلو کو ز اس وقت شہد میں حل پذیری حالت میں ہی
رہتا ہے۔ چھتے سے شہد نکالنے کے بعد جب شہد کو عام درجہ حرارت پر سٹور کیا جاتا ہے
تو شہد میں گلوکوز کی فالتو مقدار اس کے درجہ حرارت میں کمی ہو جانے کی وجہ سے حل
پذیری حالت سے غیر حل پذیری حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور شہد کے اندر دانہ دار (Granules) شکل اختیار کر لیتی ہےجس کو ہم شہد کا جمنا کہتے ہیں ۔چھتے سے شہد
نکالنے کے بعد جتنی جلدی شہد کا درجہ حرارت کم ہوگا ، اتنی جلدی ہی شہد جم جائے گا۔یہی
وجہ ہے کہ گرمیوں کے موسم میں نکلا ہوا شہد مثلاًبرسیم یا پھلاہی کا شہد ، دیر سے
جمتا ہے اورسردیوں میں نکلا ہوا شہد مثلاً توریا یا سرسوں کا شہد بہت جلد جم جاتا
ہے۔
اس کے علاوہ شہد
میں0.5فیصد سے تقریباً 3 فیصد تک گنے کی شکر بھی موجود ہوتی ہے۔
یہ شکر شہد میں موجود قدرتی لعوقات (Enzyme)کے عمل سے آہستہ آہستہ اپنے سادہ اجزا گلوکوز اور فرکٹوز
میں تبدیل ہوتی رہتی ہے اور اس طرح شہد میں موجود گلوکوز کی مقدار میں اضافہ کا باعث
بنتی ہے جو اکثر اوقات زیادہ مقدار ہو جانے کی وجہ حل پذیر حالت میں نہیں رہ سکتی
اور دانہ دار شکل اختیار کر لیتی ہے۔
بعض اوقات قدرتی گرمی شہد کو گرم کرنے یا کسی اور وجہ سے
شہد میں پانی کی مقدار پہلے کی نسبت کم ہو
جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے اس میں گلوکوز کی مقدار پانی کی نسبت بڑھ جاتی ہے اور
گلوکوز کی یہ زائد مقدار دانہ دار شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اگر کسی شہد میں گلوکوز
کی مقدار پھلوں کی شکر کی مقدار سے کم ہو تب بھی گلوکوز ہی شہدمیں دانہ دار شکل
اختیار کرتی ہے اور اس کو جمانے کا باعث بنتی ہےکیونکہ گلوکوز پھلوں کی شکر کی
نسبت بہت کم مقدار میں پانی میں حل ہوتی ہے ۔ شہد میں ہوا کے باریک بلبلے زرگل یا
موم کے ذرات اور ہوا میں موجود ریت کے ذرات اس کے منجمد ہونے میں محرک ثابت ہوتےہیں
۔ انگوری شکر کے دانے انہی ذرات کےمحورکےگردگردجمتےہیں۔ ایسی اشیاءجوشہدکومنجمدمیں
مدددیں انکو جاگ(Starter)کہتے ہیں۔شہد میں ان محرکات کی جس قدر زیادتی ہوگی شہد اس
قدر جلدی منجمد ہو گا اور جتنا بڑا جاگ(Starter)کا سائز ہو گا اتنے ہی بڑ ے شہد کے دانے بنیں گے۔
اس کے علاوہ شہد میں گاڑھا پن بھی ایک ایسا عنصر ہے جو شہد
کے جمنے کی خاصیت کی کسی حد تک کنٹرل کر تا ہے ۔ یہ شکر کے ذرات کو اس کے نئے
اُبھرتے ہوئے دانوں پر جمنے کے لیے حرکت
کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے شہد میں یہ گاڑھا پن اس میں حل شدہ مادوں یعنی شکر
کی تمام اقسام بشمول گلوکوز و فرکٹوز ،قدرتی تیزابوں ،لعوقات، دھاتی اور (Colloids)کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ یہ(Colloids)دراصل
ٹھوس مادوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور بعض لحمیات کی مالیکیول ہوتے ہیں جن پر ایک
جیسا برقی چارج ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو پرے دھکیلتے ہیں ۔ اس کا
ایک دوسرے کو پرے دھکیلنا ہی دراصل گلوکوز کے ذرات کی حرکت میں رکاوٹ بنتا ہے اور
اس طرح اس کے عمل کو سست کر دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ ابھرتے ہوئےدانے بڑے سائز کے ہونگے جبکہ تیزی سے بڑھنے والے دانے چھوٹےسائز کے ہوں
گے۔ اس لیے زیادہ گاڑھے شہد جب منجمد ہوں تو اس کے دانے بڑے سائز کے ہوتے ہیں ۔
مزید یہ کہ سردیوں کے موسم میں منجمد شہد کو گرم کر دیاجائے تو دانہ دار گلوکوز
دوبارہ شہد میں موجود پانی میں حل ہو جا تا ہے اور پھر جب شہد ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو
وہ سردی کے زیر اثر گاڑھا ہو جاتا ہے اور دوبارہ جمنے میں جلدی نہیں کرتا لیکن
سرسوں اور توریا کے پھولوں سے حاصل ہونے والے شہد گرم کرکے مائع حالت میں تبدیل
ہونے کے بعد بھی جم جاتے ہیں۔ جمے ہوئے شہد کی خصوصیت یہ ہے کہ ٹوسٹ پر اچھی طرح
سے لگایا جا سکتا ہےاور اس کے قطرے فرش یا کپڑوں پر نہیں گرتے اور اس کا ذائقہ بھی
مائع شہد کے مقابلہ میں خوشگوار ہوتا ہے ۔اس لیے شہد کو کھلے منہ والی بوتلوں یا
برتنوں میں بھر کر رکھا جا سکتا ہے اور اگر وہ جم جائے تو اس کو چمچ سے نکال کر
منجمد حالت میں ہی استعمال کیا جا تا ہے۔
تا ہم اگر کبھی
منجمد شہد کو مائع حالت میں لانا پڑے تو اس کو بڑی احتیاط سے گرم کرنا چاہیے اگر
شہد کو زیادہ گرم کیا جائے تو اس میں موجود ڈایاسٹیز(Diastase)گلوکوزآکسی
ڈیز(Glucose
Oxidase)اور دیگر لعوقات ضائع
ہو جاتے ہیں جس سے شہد کی شفا دینے والی اور جراثیم کش خاصیت بُری طرح متاثر ہوتی
ہیں ۔اس کے علاوہ شہد میں موجود لحمیات وحیاتین(Vitamins) بھی جل جاتی
ہیں اوراس کی غذائی اہمیت بھی کم ہوجاتی ہے ۔چنانچہ اگر شہد پلاسٹک یا شیشے کے
مرتبانوں میں منجمد ہوا ہو تو ایسے مرتبانوں کو دھوپ میں رکھنے سے شہد پگھل جاتا ہے ۔ شیشےکے
مرتبانوں یا شہد والے دوسرے دھات سے بنے
ہوئے برتنوں کو مسلسل گرم پانی میں رکھنے سے بھی شہد مائع حالت میں تبدیل ہو جاتا
ہے ۔پا نی میں مرتبان تقریباً ڈوب جانے چاہیے لیکن پانی مرتبان کے اندر نہیں جانا
چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ پانی کی سطح مرتبان کے منہ سے ذرا نیچے ہی رہے تا کی پانی
بھی مرتبان میں نہ جائے اور گرم پانی کی حرارت بھی سارے مرتبان کو پہنچے ۔ پانی کو اس طرح گرم
رکھا جائے کہ وہ 160 تا 180 فارن ہیٹ سے زیادہ گرم نہ ہو۔پانی جتنا زیادہ گرم ہوگا
شہد کے اجزا جل جانے کا اتنا ہی زیادہ ڈر ہو گا ۔اس طریقہ میں سب سے بڑا نقصان یہ
ہے کہ شہد کے برتن کا باہر والا حصہ اور ا س کے ساتھ والا شہد خصوصاً پیندے کی طرف
والا حصہ اور شہد بہت جلد گرم ہو جاتا ہے اوروہ شہد اس وقت تک وہاں گرم ہوتا رہتا
ہے جب تک برتن کے درمیان والا شہد گرم ہو کر مائع نہ بن جائے۔ ان حالات میں باہر
کی طرف والے شہد کی حرکت بھی نہیں ہو سکتی اور اس شہد کے جلنے کا احتمال رہتا ہے
جس سے احتیاط لازمی ہے ۔مرتبانکے نیچے پانی میں اگر لکڑی کا ٹکڑا رکھ دیا جائے تو
پیندے کی طرف سے شہد کے جلنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے ۔تھوڑے تھوڑے
وقفوں کے بعدمائع حالت میں تبدیل شدہ شہد کو نکال لینے سے بھی اس
کے جلنےکا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
یہاں اس عمل کی وضاحت بھی ضروری ہے کی منجمد شہد کا رنگ
مائع حالت میں تبدیل ہونے کے بعد گہرا ہو جاتا ہے۔سفید رنگ کا منجمد شہد مائع حالت
میں تبدیل ہونے پر نیلگوں یا ہلکا زرد رنگ اختیار کر لیتا ہے ۔ اورسفید مائل منجمد
شہد پگھل کر زرد رنگ کے مائع شہد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر
منجمد شہد کو اسی حالت میں پڑا رہنے دیں تو بہار کے موسم میں گرمی کی زیادتی سے
منجمد شہد کی بوتل میں سے کچھ شہد مائع حالت میں تبدیل ہو کر اُوپر آجاتا ہے اور ایک ہی بوتل میں اوپر کا شہد مائع
حالت میں زرد یا بھورے رنگ کا ہو جاتا ہے جبکہ نیچے کا شہد سفید یا سفید ی مائل منجمد ہوتا ہے۔ شہد
سے پوری طرح واقفیت نہ رکھنے والے حضرات سمجھتے ہیں کہ ایسے شہد میں ملاوٹ ہوتی
ہے۔حالانکہ یہ شہد بھی خالص ہو تا ہے۔منجمد شہد کو جوں جوں حرارت ملتی ہے وہ مائع
حالت میں تبدیل ہوتا رہتا ہے اور مائع شہد منجمد شہد سے ہلکا ہونے کی وجہ سے اوپر آجاتا ہے۔منجمد شہد سے
مائع حالت میں تبدیل ہو کر شہد کا رنگ چونکہ گہرا ہو جا تا ہے اس لیے وہ تہ میں
پڑے ہوئے منجمد شہد سے الگ دکھائی دیتا ہے۔
1) شہد کو 18 درجے سنٹی
گریڈ یا اس سے کم درجہ حرارت پر سٹور کرنے سے اس کے جم جانے کا امکان ہوتا ہے۔ شہد
میں موجود نمی اور گلوکوز کی مقدار کے لحاظ سے کوئی شہد 18 درجے سنٹی گریڈ پر ہی
جمنا شروع ہوجاتا ہے ۔لیکن جس شہد میں نمی نسبتاً زیادہ ہو گی اور گلوکوز کی مقدار
نسبتاً کم ہوگی وہ 18 درجے سنٹی گریڈ سے کم درجہ پر منجمد ہونا شروع ہو گا۔شہد کے
انجماد کے لئے 14 درجے سنٹی گریڈ بہترین درجہ حرارت ہے ۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ پھلاہی کے پھلوں سے بنا ہوا
شہد ستمبر اکتوبر میں جم جاتا ہے بلکہ بعض سالوں میں تو اگست میں ہی جمنا شروع ہو
جاتا ہے ۔ اس طرح کنوں،مالٹے کے پھولوں سے بناہوا شہد بھی اگست میں جم جاتا ہے ۔
شائن کے پھولوں سے بنا ہوا شہد جو عموماً نومبر میں نکالا جاتا ہے وہ تقریباً
جنوری کے آخر میں جم جاتا ہے ۔لوکاٹ کا شہد بھی چھتے سے نکالنے کے ایک یا ڈ یڑھ
ماہ بعد جم جاتاہے ۔ سرسوں اور توریا کا شہد نکالنے کے چند یوم بعد ہی جمنے لگتا
ہے لیکن اوپر کہا گیا ہے کہ جمنے کی خاصیت کا انحصار درجہ حرارت ،نمی اور گلوکوز
کی مقدار پر ہے ۔ راقم
الرؤف نے خود توریئے کے شہد کو چھتوں میں
منجمد ہونے کا مشاہدہ کیاہے۔ بیری کے پھولوں کا شہد ابھی تک جما ہوا نہیں دیکھا
گیا۔ ریفائن شہد اپنی اصلی خصوصیات کھو دیتا ہے جیسے باہر سے بنے ہوئے شہد آتے ہیں
جیسے لیگنیز والا شہد جسے بہت زیادہ ٹمپریچر پر گرم کیا جاتا ہے پھر پراسیس کر کے
پریزرویٹیوز ڈال کر فروخت کیا جاتا ہے جو غذائیت کے لحاظ سے اچھا نہیں ہے وہ تو
کبھی نہیں جمے گا۔
(زراعت نامہ یکم مارچ 1990ء )۔ محمد صدیق چوہان انعام الحق( انٹیو
مالوجسٹ ، ماہر حشرات، مگس بانی وہ پہاڑی
پھلوں کے ضرر رساں تحقیق گاہ راولپنڈی)